Search This Blog

Wednesday 31 May 2017

لوگ کیا کہیں گیں

لوگ کیا کہیں گیں

بڑی دھوم دھام سے آج ماہم کی شادی ہوگئی جس کا اس کے والدین کو کب سے انتظار تھا خیر سے اس کی رخصتی بھی ہوگئی. 
 سب رشتدار , مہمان وغیرہ بس یہی سوچ رہے تھے کہ ماہم کے والدین اب مطمئن ہیں کیونکہ ان کی بیٹی اب اپنے گھر کی ہوگئی,  بظاہر ایسا ہی دِکھ رہا تھا..
 پر کیا واقعی ایسا تھا? کیا سچ میں ماہم کے والدین مطمئن تھے یا بس اک سمجھوتہ تھا قسمت سے جس کی وجہ سے مجبور ہوکر انھوں نے ایک طلاق یافتہ شخص سے شادی کردی,وہ ہنسی دِکھاوا تھی اندر سے وہ بہت پریشان تھے.پر کیوں? وجہ کیا? 
 وجہ حالات تھے,!! وہ حالات جو لڑکی کے بالغ ہونے کے بعد شادی تک اسے برداشت کرنے ہوتے ہیں, وہ تعنے, وہ لوگوں کی نظریں جو اسے سکون سے جینے نہیں دیتی ..پھر ہوتا یوں ہے بیچارے لڑکی کے والدین اس قدر ڈپریشن میں آجاتے ہیں اور ہر طرح کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کی بیٹی اک اچھی جگہ اپنے گھر کی ہوجائے.. پر ہوتا اس سے مختلف ہے.. جیسا ماہم کے ساتھ ہوا ,شادی کومشکل سے ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا کہ زہنی اور جسمانی تشدد شروع جو چلتے چلتے بالا آخر چھ مہینے تک آ پہنچا,ہر روز جانوروں سے بدتر سلوک,زہنی دباؤ مطلب اک نا ختم ہونے والا سلسلہ,اک انسان وہ بھی اک عورت برداشت کرے تو آخر کتنا, آخر چھ مہینے کے بعد حد سے زیادہ زیادتیاں برداشت کرنے کے بعد ماہم کے والدین اسے گھر واپس لے آئے... 
لو جی اب ایک نئی پریشانی نئی الجھن  لوگ کیا کہیں گیں لوگوں کو اب کیا کہیں گیں !!!

مطلب صاف کہ لڑکی کنواری ہو تب بھی لڑکی کا قصور,لڑکی پر سچ میں تشدد ہو تب بھی لڑکی کا قصور, واپس آجائے تب بھی لڑکی کا قصور...
 اور یہ سب کے لیے نہیں کچھ تو لڑکیاں چلا چلا کر کہ رہی ہوتی ہیں کہ ہم پے یہ ظلم ہوا وہ ظلم ہوا میرے سسرال والے اتنے ظالم وغیرہ.. میری سمجھ نہیں آتی کہ یہ اتنی مظلوم لڑکیاں ان میں اتنی ہمت کہاں سے آتی ہے چلانے کی, اصل میں دیکھا جائے تو مظالم کا شکار لڑکیاں تو بیچاری اس قدر سہمی ہوتی,زہنی دباؤ کا شکار ہوتی ہیں کہ وہ تو ٹھیک سے بول  بھی نہیں پاتی اور لوگوں کے ان گنت سوال سن کہ کئی بار ان کی بھیگھی ہوئی آنکھیں جھک جاتی ہیں اور لب خاموش ہوجاتے ہیں..
 تب لوگ کہتے ہیں کہ قصور تو ہے اسکا بھی ہے... واہ رے ہمارا معاشرہ واہ.... جو بناوٹی جھوٹ کو سچ اور سچے سچ کو ہمیشہ جھوٹ سمجھتے ہیں...  میرا مقصد اس تحریر کا صرف یہ ہے کہ لوگوں سچ کو پہچانو, سچ کا ساتھ دو 
ورنہ آج ماہم ہے تو کل آپ کی بیٹی ہوگ
تب آپ بھی اسی مقام پہ ہونگے..
 خدارا سچ کو سمجھو سچ کا ساتھ  دو,ان بھیڑیوں کو بے نقاب کرو جو شادی کے نام پہ کسی کے جگر کا ٹکڑا لے جا کہ اس کے ساتھ جانوروں سے بدتر سلوک کرتے ہیں, اور وہ لڑکی اس سوچ سے گھٹ رہی ہوتی ہے کبھی ماں باپ کی عزت بچا رہی ہوتی ہے تو کبھی خود کی عزت,کبھی ماں باپ کی صحت کی خاطر گھٹ رہی ہوتی ہیں, کبھی یہ سوچ کے لوگ کیا کہیں گے, ان لوگوں میں انسانیت نام کی کوئی چیز  نہیں, ایسے لوگ ہیں اب بھی, جن کو ہماری مثبت سوچ و رویہ ختم کر سکتا ہے..
آخر میں بس یہی کہنا ہے یہ کوئی من گھڑت کہانی نہیں ایک حقیقت ہے,ذرا اپنے آس پاس نظر گھما کہ دیکھیں.. اللہ پاک سب بچیوں کے نصیب اچھے کرے آمین..
طلبگار دعا: سیدہ ام لیلا رضوی

No comments: